تیسری جنس یاخواجہ سرا آج بھی باعزت روزگارسے محروم

کیسی ہومیری باجی؟بھاری سی آوازپرپلٹ کردیکھا توجانے پہچانے مخصوص چہرے

کومسکراتا ہوا پایا۔
گھرکے قریب چھوٹی سی مارکیٹ میں اکثرسامنا ہونے اورروایتی سوال وجواب نے نہ صرف ہمیں اس سے بلکہ اسے بھی ہم سے مانوس کردیا تھا۔رسمی گفتگو کے بعد نہ جانے دل میں کیا آئی کہ ذاتی سوال جواب پراترآئے۔یہ اوربات کہ جوسننے کوملا اس کے بعدبھرے بازارمیں خود پرقابوپانا مشکل ہوگیا۔

ذاتی سوال پوچھنے کی اجازت چاہی توفراخدلی سے جواب ملا ہاں ہاں پوچھوباجی۔چار سالوں میں نام بھی اسی روزپتا چلا۔۔انمول۔ٹرانس جینڈرانمول۔

پچھلے دس سالوں سے یہاں اسی مارکیٹ میں آرہی ہوں۔ گھرکا کام کاج ختم کرکے تین چاربچےنکلتی ہوں۔ عشا کے بعد گھرچلی جاتی ہوں۔تین بہنیں ہیں۔ایک کا نکاح ہونے والا ہے۔رشتے داروں نے میری وجہ سے خاندان کوچھوڑدیا۔صرف ماموں ملتے ہیں۔میرا ہونے والا بہنوئی کاریگر ہے۔انمول نے بولنا شروع کیا توبولتی ہی چلی گئیں۔

رہائش اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہے؟ اس سوال پرانمول کا کہنا تھا کہ پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد خواجہ سرا برادری کے لوگ مجھے اپنے ساتھ لاہور لے گئے تھے۔گھرمیں  مہمان مبارکباد دینے آرہے تھے اس لئے والدہ کی درخواست پرفورا نہیں لے کرگئے کہ کسی کوپتا نہ چلے۔میرے ماں باپ اوربہنوں  نے کبھی مجھ سے قطع تعلق نہیں کیا ہمیشہ رابطہ رکھا،انمول نے فخرسے بتایا۔اب ناظم آباد کی ایک آبادی میں اپنی بہنوں کے ساتھ رہتی ہوں۔والدین کا انتقال ہوگیا۔والد کے انتقال کے بعدواپس کراچی آگئی۔

سڑک کے کنارے کھڑی باتیں کرتی انمول پرآتے جاتے لوگ نگاہ ڈالتے گزررہے تھے لیکن انمول ان سب سے بے نیازاپنی زندگی کے پچھلے صفحے الٹ رہی تھیں۔شاید انہیں بھی کوئی سننے والا چاہئیے تھا۔

لاہورمیں گزرےوقت کویاد کرکے انمول کے چہرے پرچمک آگئی۔لاہورمیں گزرا وقت بہت اچھا تھا۔میرے گرونے میری تربیت کی۔تمہیں یقین نہیں آئے گا میں بہت اچھا ڈانس کرتی تھی۔دس ہزارتومیں صرف خیرات کے نکالتی تھی فقیرکودینے کے لئے اورآج دیکھویہ وقت آگیا کہ ہاتھ پھیلانے پڑرہاہے،انمول کی آوازپست ہوتے ہوتے ڈوب سی گئی۔

اب گزارا کیسے ہوتے ہے توانمول نے کاکہنا تھا کہ بس ہوجاتا ہے۔انمول نے جب یہ بتایا کہ میرے دوگرو بھی میرے ساتھ رہتے ہیں توعام سی بات لگی لیکن جب ان کوکریداتواپنی دھن میں بولتی انمول کہہ رہی تھیں کہ میرے دوگروبوڑھے ہوگئے ہیں کمانے کے قابل نہیں رہے تومیں انہیں اپنے ساتھ لے آئی۔وہ بیچارے کیا کرتے۔مہنگائی اورنفسا نفسی کے اس دورمیں جب سگی اولادبھی والدین کواولڈ ہاؤسزچھوڑآتی ہے ایک ‘خواجہ سرا’ کے منہ سے نکلی اس بات نے ایک لمحے کوسن سا کردیا۔آج کل کے دورمیں جب اچھے اچھے مہنگائی کا رونا روتے ہیں سڑکوں پربھیک مانگ کرگزارا کرنے والی خواجہ سرا اپنی بہنوں کے ساتھ اپنے گروکوبھی پال رہی ہے۔

انمول کا کہنا تھا اپنے دونوں گرووں کے لئے میں نےالگ ایک کمرہ لے رکھا ہے اپنے گھرمیں اپنی بہنوں کے ساتھ نہیں رکھا۔پہلے گھرکا کھانا پکاتی ہوں پھرگرو لوگوں کے لئے پھریہاں آتی ہوں۔واپسی پردودھ اورسبزی وغیرہ لیتی ہوئی جاتی ہوں ۔میری ایک بہن نے قرآن پاک کی تعلیم لی ہے دوسری بھی پڑھ رہی ہے۔

کون سی بات خوشی دیتی ہےانمول؟اس سوال پرانمول نے بغیرکسی توقف کے جواب دیا کسی بات پربھی نہیں،جوکچھ اللہ پاک نے دیا ہے اس کا کرم ہے۔خوشی لیکن عارضی ہوتی ہے۔غم ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔اس بات کے بعد ہمارے پاس مزید کچھ رہا نہیں بات کرنے کو۔نم آنکھوں سے انمول کودیکھا توانمول نے ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ ہمارے سرپرہاتھ رکھا اوربغیرکچھ کہے اپنے راستے چل دیں۔



Comments