برطانیہ کے ’روکھے پھیکے‘ انتخابات

برطانیہ کے ’روکھے پھیکے‘ انتخابات

دنیا کی قدیم جمہوریتوں میں سے ایک برطانیہ میں عام انتخابات کا مرحلہ ہمیشہ کی طرح بخیروخوبی انجام پا گیا۔
پانچ سالوں میں ہونے والے یہ تیسرے الیکشن تھے وہ بھی بریگزیٹ کے ہنگامہ خیز پس منظرمیں، لیکن صاحب مجال ہے جوکوئی شورشرابا ہوا ہو، وہی پُرسکون ماحول اورنظم وضبط کی پابندی کرتے ووٹرز، اورتو اورسیاسی اکھاڑے میں اترنے والے نامی گرامی پہلوان یعنی سیاست دان بغیرایک دوسرے پرالزامات کی بارش کیے ہارتسلیم کرتے اور ملک کے لیے کام
کرنے کے بیان دیتے دکھائی دیے۔



سادہ الفاظ میں ہمارے ملک پاکستان کے مقابلے میں انگریزوں سے معذرت کے ساتھ، برطانوی الیکشنزکو بآسانی ’روکھے    پھیکے‘ قراردیا جا سکتا ہے۔
رطانوی پولنگ سٹیشنز کودیکھیں توپتا ہی نہیں چلتا کہ الیکشن ہورہے ہیں۔ لوگ سکون سے ووٹ ڈالتے اورکاموں پرچلے جاتے ہیں یا پھرکام سے واپسی پرووٹ ڈال دیتے ہیں۔ نہ پولنگ سٹیشن کے باہرٹینٹ ہوتے ہیں اورنہ ہی سیاسی پارٹیوں کے کارکن اپنی جماعت کا جھنڈا لہراتے لپیٹے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ ستم بالائے ستم برطانوی عوام ووٹنگ والے دن بھی چھٹی سے محروم رہتے ہیں۔

پاکستان میں تو الیکشن کا باقاعدہ موسم ہوتا ہے۔ دیگیں چڑھتی ہیں، کھڑکتی ہیں۔ نعرے لگتے ہیں اورجلسوں، ریلیوں میں سیاسی مخالفین کوللکارا جاتا ہے۔ اپنے شہروں کو لندن اور پیرس بنانے کے دعوے کیے جاتے ہیں لیکن یہ اوربات ہے کہ شہروں کی قسمت الیکشن سے پہلے اور بعد میں ایک جیسی ہی رہتی ہے، یعنی بدحال اوربنیادی سہولتوں سے محروم۔
غرض خوب رونق میلہ لگتا ہے۔ جوجیتتا ہے وہ سکندرہوتا ہے اورہارنے والا اگلے انتخابات کے آخری دن تک دھاندلی کا رونا روتا ہے۔ ایکشن کا تڑکا لگانے کے لیے ہوائی فائرنگ اور معاملہ سنگین ہوجائے تو ایک آدھ بندہ فائرنگ کی نذربھی ہوجاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا برطانیہ میں عام لوگ نہیں بستے یا ان کی سیاسی وابستگیاں اورجذبات نہیں ہوتے؟ ظاہرہے ایسا نہیں ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ برطانیہ میں جمہوریت اورجمہوری رویے معاشرے میں سرایت کرچکے ہیں اورعوام جمہوری سانچے میں مکمل طورپرڈھل کرپختہ ہوچکے ہیں۔ ہمارے ملک کے برعکس برطانیہ میں سیاسی ہارجیت کو ذاتی دشمنی نہیں بنایا جاتا بلکہ ایک عمل کا حصہ سمجھ کر آگے بڑھا جاتا ہے۔

جمہوری معاشرے کی خوب صورتیوں کے رنگ برطانوی انتخابات میں واضح دکھائی دیتے ہیں، جہاں پاکستانی نژاد پندرہ برطانوی شہری اپنی قابلیت اورمحنت کے بل پربغیرکسی جوڑتوڑ کے پارلیمنٹ میں جا پہنچتے ہیں۔ وزیرخارجہ کا منصب پاکستانی بس ڈرائیورکا بیٹا سنبھالتا ہے توکئی سال پہلے پاکستان سے ہجرت کرکے لندن جا بسنے والے خاندان کا سپوت صادق خان کی شکل میں لندن جیسے دنیا کے بڑے اور مختلف ثقافتوں پرمشتمل شہرکا میئر بن جاتا ہے۔
یورپی یونین سے انخلا کے معاملے پر، جسے عام طورپر بریگزیٹ کہا جاتا ہے، برطانوی سیاست کافی عرصے سے اتارچڑھاؤ کا شکار ہے۔ اس انتخابات میں بھاری مارجن سے جیتنے والی حکمران کنزرویٹوپارٹی کواپنی وزیراعظم ٹریزامے کا عہدہ قربان کرنا پڑا جس کے بعد بورس جانسن نے منصب سنبھالا اوربریگزٹ پرنہ صرف اپوزیشن بلکہ اپنی پارٹی کے ارکان کی بھی مخالفت کا سامنا کرنے پرانہیں حکومت تحلیل کرکے نئے انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔

سیاسی بحران اور تناؤ کے باوجود جب الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوا تو اپوزیشن لیڈر جیمرمی کوربن نے دھاندلی کا واویلا کرنے کے بجائے شکست تسلیم کرلی اور وزیراعظم بورس جانسن کو برطانوی عوام کی فلاح وبہبود کے نکات پیش کردیے۔
اس صورت حال کو مدنظررکھا جائے توایک بار پھریہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ سیاسی رویوں کو پروان چڑھانے کے لیے برداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنی ہاراورسیاسی مخالف کی جیت کوکھلے دل سے تسلیم کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کرسیاسی ماحول میں وہ کھلاپن اور برابری کے مواقع پیدا ہوتے ہیں جو کہ ہمیں برطانیہ یا دنیا کے دوسرے جمہوری ممالک میں دیکھنے کوملتے ہیں۔

پاکستانی عوام سیاسی شعور رکھتے ہیں اورملک کی بہتری کے لیے پرعزم بھی ہیں۔ سسٹم میں پائی جانے والی خرابیوں کو دورکرلیا جائے تویقیناً پاکستان میں بھی سیاسی کلچر بدل جائے گا اورالزام تراشی کے بجائے تنقید کرنے اور تنقید برداشت کرنے کا ماحول بنے گا۔ ہمارا سفر تو درست سمت میں جاری ہے بس جو خامیاں ہیں ان پرقابو پانے کی ضرورت ہے۔

Comments