رواج کے نام پر انسانیت کا قتل کب تک

زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹیوں کوزندہ دفنا دیا کرتے تھے۔ مہذب معاشرے کے وجود میں آنے کے بعد گمان تھا کہ یہ رواج ختم ہو گیا لیکن یہ خیال بھی خام ثابت ہوا۔ نام نہاد غیرت کے نام   پرقتل کی شکل میں یہ روایت آج کے دورمیں بھی زندہ ہے۔ کبھی کاروکاری کے نام پر تو کہیں ونی کی شکل میں۔۔

سندھ کے ضلع دادوکے علاقے جوہی میں 21 نومبرکی ہلکی خنک شام 11 سال کی بچی کے لئے اپنوں کے ہاتھوں موت کا پیغام لائی۔ میڈیا کی رپورٹس پر یقین کیا جائے تو جرگے کے حکم پر کاری قرار دی گئی جوہی کے باسی علی بخش رند کی بیٹی گل سماں کو پتھر مار مار کر‘غیرت’ کے نام پر سنگسار کر دیا گیا۔اس ہولناک واقعہ کا خوفناک پہلو بچی کے سگے والدین کی شمولیت ہے جو یہی کہتے رہے کہ بچی پتھر گرنے سے جان سے گئی۔ یہ کیسا پتھر تھا جو صرف بچی پر گرا وہیں موجود اس کے والدین کو خراش تک نہیں آئی۔
میڈیا میں واویلا ہوا تو پولیس نے کارروائی ڈالی اور گل سماں کے والدین اورجنازہ پڑھانے والے کو گرفتار کر لیا۔ قبر کشائی اور تحقیقات کا چرچا بھی ہو رہا ہے لیکن کیا اس نمائشی کارروائی سے گل سماں واپس آجائے گی اور آ بھی گئی تو کیا اپنے والدین کا گربیان پکڑ کر یہ پوچھ سکے گی کہ میرے ساتھ یہ ظلم کیوں کیا؟ یقینا وہ یہ سوال تب بھی نہیں کر سکے گی۔
نام نہاد ‘غیرت’ کے نام پر قتل جرم کی وہ بھیانک ترین شکل ہے جس میں لڑکیاں اورخواتین کسی باہر والے کے نہیں بلکہ اپنے پیاروں کے ہاتھوں بے گناہ ہی ماری جاتی ہیں۔ قندیل بلوچ سے لے کراب گل سماں تک۔۔ پتانہیں کتنی بیٹیاں، بہنیں اور بیویاں سفاکی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور یہ سلسلہ تھمتا دکھائی نہیں دیتا۔ نام نہاد رواج اور روایت کے نام پر اپنے دشمن سے پیچھا چھڑانے کے لیے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی ہی بیٹی، بہن یا بیوی کو آرام سے قربان کر دیا جاتا ہے۔
میڈیا میں آنے والے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے جون 2019 تک سندھ کے مختلف حصوں میں 78 لوگ قتل ہوئے۔ 78 افراد میں 50 خواتین اور 28 مرد ہیں۔ کاروکاری کے نام پر 65 کیسز رجسٹرڈ ہوئے۔ ان میں سے 90 فیصد کیسز مختلف وجوہات کے باعث زیرالتوا ہیں۔
اگر کاروکاری یا غیرت کے نام پر قتل کے سارے کیس رپورٹ ہونے لگیں تو شاید اعدادوشمار اس بھی کہیں زیادہ ہولناک نقشہ پیش کریں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ شرمناک سلسلہ کبھی رکے گا یا نہیں۔ زمینی حقائق کو دیکھ کر جو تلخ جواب سامنے آتا ہے وہ نہیں ہے۔ اس ظلم میں شریک اوراسے بڑھاوا دینے والوں میں جرگے، سرداراور جاگیردار ہی نہیں پورا نظام شامل ہے۔
غربت، جہالت اورنام نہاد رسم ورواج میں جکڑے لوگ مل کر ظلم اور ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے نہیں ہوتے۔ گل سماں جیسا واقعہ سامنے آنے کے کچھ عرصے تک میڈیا میں چرچا ہوتا ہے۔ شہری علاقوں میں رہنے والے زبانی اظہارافسوس کرتے اور رائے کا اظہار کرتے ہیں اور پھر کوئی نیا واقعہ پچھلے واقعے پر گرد ڈال دیتا ہے۔ اس رویے کو بدلنا ہو گا۔
عملی طور پر ایک ہوکر ہر اس شخص کوانصاف کے کٹہرے میں لانا اور نشان عبرت بنانا ہو گا جو کاروکاری اورغیرت کے نام پر قتل کر کے بھی چند دن جیل میں گزار کر آزاد ہو جاتا ہے۔
جرگوں میں بیٹھے نام نہاد معززین سے پوچھا جانا چاہئیے کہ وہ کس قانون کے تحت لوگوں کو سزائیں دیتے اور عملدرآمد کراتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک میں خواتین کے تحفظ اور غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے قوانین تو ہیں لیکن ان کا نفاذ نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد کر کے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کے مجرموں اور ان کے بااثر سرپرستوں کوعبرتناک سزائیں دی جائیں تا کہ کوئی بھی ایسا جرم کرنے سے پہلے 100 مرتبہ سوچے لیکن معاشرتی بے حسی اورسنگدلی دیکھتے ہوئے ایسا ہونا دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔

https://www.pakistantribe.com/urdu/2019/12/13/695551/

Comments