بھارت میں مودی سرکارکیخلاف نیا بیانیہ



بھارت میں ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی نئے انتخابات میں پرانے چہرے دوبارہ اقتدار کے سنگھاسن پربراجمان ہوئے توسب  ‘نارمل’چل رہا تھا لیکن پھراچانک ایک بارپھرمودی سرکارکے راج میں کچھ ایسا ہوگیا کہ جس کا گمان خود انہیں بھی نہیں
تھا۔
خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ لوک سبھا اورپھرراجیہ سبھا میں شہریت کا ترمیمی بل منظورکرانے کے بعد  شادیانے بجانے والے مودی جی کے خاص آدمی اوربھارتی وزیرداخلہ امیت شاہ کوایسا غم دیکھنا پڑا جوآج تک جاری ہے اورروزبروزاس میں شدت آتی جارہی ہے۔
بھارتی شہریت کے ترمیمی قانون سے مسلمانوں کوبے دخل کرنے پراحتجاج کا جوسلسلہ آسام سے شروع ہوا اس کا عروج دلی کی جامعہ ملیہ میں ہوا۔مسلمانوں کوبھارتی شہریت کے حق سے محروم کرنے کے ترمیمی قانون  کے خلاف طلبا کے پرامن احتجاج پرپولیس نے تشدد کیا اورپھرگرلز ہاسٹل سے لے کرلائبریری تک کچھ نہ چھوڑا۔طلبا پرلاٹھیاں برسانے،آنسوگیس کی شیلنگ کے مناظرسامنے آئے تو دلی کی ہی ایک اورجامعہ جواہرنہرویونیورسٹی جوجے این یوکے نام سے زیادہ مقبول ہے اس کے طلبا بھی نکل پڑے۔ادھرعلیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی احتجاج شروع ہوا اورپھرچل سوچل۔بھارت کا کون سا شعبہ ہے جس سے وابستہ باشعور شخص مظاہرے کا حصہ نہیں بنا۔
دہلی کا شاہین باغ خواتین کے احتجاج کا گڑھ بن گیا۔ریکارڈ سردی میں چھوٹے بچوں کے ساتھ ہرعمر کی خواتین دھرنا دئیے بیٹھی ہیں۔نوے سالہ ایک خاتون نے مودی سے ہی سرکاری کاغذ مانگ لیا۔کہا تم کاغذ دکھاؤ پھرہم دکھائیں گے۔
بھارت کا ذکرہواوربالی وڈ کا نہ ہوایسا ہونا مشکل ہے۔بات بات پرٹوئٹ کرنے والے امیتابھ بچن سے لے کردلی کی جامعہ ملیہ سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹرزکی ڈگری لینے والے شاہ رخ خان تک۔۔سب ایسے غائب ہوئے جیسے دنیا میں ہیں ہی نہیں۔اپنی مادرعلمی کے طلبہ اورطالبات پرپولیس کا بہیمانہ تشدد بھی شاہ رخ کی زبان نہ کھلواسکا۔خود کودبنگ خان کہنے والے سلمان خان ہوں یا عامرخان یا پھرنصیرالدین شاہ۔۔سب نے ایک چپ سوسکھ کا محاورہ سچ کردکھایا۔
ایسے میں فرحان اخترنے ہمت دکھائی اورمظاہرین سے جاملے۔انوراگ کشیب نے ظلم کیخلاف آواز اٹھائی اورمخالفوں کا نشانہ بنے۔ اپنی فلم کی ریلیز سے ایک روز پہلے دیپکا پڈکون نے دلی میں طلبا مظاہرے میں شرکت کرکے تمام خانوں کوجوپیغام دیا  وہ جرات اوربہادری کا تھا۔یہ بتانے کی ضرورت تونہیں کہ طلبا سے ملاقات کے بعد دپیکا اوران کی فلم کے بائیکاٹ کی مہم زوروشورسے جاری ہے۔بقول ٹوئٹرکے ایک صارف کے دنیا میں جینا ہوتودپیکاپڈکون بنو۔۔شاہ رخ خان یا اکشے کمارنہیں۔
پانچ اگست کومقبوضہ کشمیرکی پوری اسی لاکھ کی آبادی کوطاقت کے زورپرقیدی بنانے پربھی مودی سرکارکیخلاف جو نہ ہوسکا تھا وہ ان چند ہفتوں میں ہوگیا۔ہوائیں مودی مخالف سمت میں چلنے لگیں۔بھارتی میڈیا جس کے مودی راج دلارے ہیں وہ بھی خاموش نہ رہ سکا اورطلبا پراندھا دھند تشددسامنے لانے میں پیش پیش رہا سوائے چند ایک انتہا پسند چینلز کوچھوڑ کر۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اوروزیرداخلہ امیت شاہ کوکئی شہروں کے دورے مظاہروں کے خوف سے منسوخ کرنا پڑے۔بھارت کا کوئی شہر،کوئی ریاست ایسی نہیں جہاں طلبا پرتشدد اورشہریت کے متنازع قانون کیخلاف احتجاج نہ ہورہا ہو۔ممبئی،دہلی،آگرہ،کولکتہ سمیت چھوٹے بڑے شہرمودی سرکارکیخلاف اورآزادی کے نعروں سے گونج رہے ہیں۔
بی جے پی اورنریندرمودی نے نفرت اورتعصب کا جوبیانیہ مسلمانوں اوراقلیتوں کے خون سے پروان چڑھایا تھا وہ آج مظاہروں کی شکل میں بھارت کے گلی کوچوں میں جل کربھسم ہورہا ہے۔ملک گیراحتجاج میں شریک ہزاروں لوگ مذہبی اورمعاشی تفریق کے بغیرانصاف اورمساوات کا مطالبہ کررہے ہیں اوریہ آوازیں اتنی توانا ہیں کہ مودی اوران کے ساتھیوں کے لئے انہیں روکنا ناممکن ہے۔
بھارت میں طلبا کا احتجاج باقاعدہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ایسی طلبا تحریک جس میں فیض کی لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے اورجالب کا ترانہ ظلم کے ضابطے میں نہیں مانتا سے فضائیں گرم ہیں۔آج مسلمانوں کوحقوق سے محروم کرنے کی انتہاپسندانہ کوششیں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں اوراس کا سہرا بلاشبہ بھارتی طلبا وطالبات کے سر ہے جنہوں نے بھارت کوایک نیا بیانیہ دیا ہے۔

بھارت میں جاری مظاہروں اوراحتجاج نے دنیا خصوصا خطے کے ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے کودیکھا دیا کہ جس ملک میں نوجوان جائزحق اورانصاف کے لئے لہر بن کراٹھیں وہاں مودی اورامیت شاہ جیسے نفرت کے پجاری تنکوں کی طرح بہہ جاتے ہیں۔یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ نفرتیں بونے والوں کوبلآخرمنہ کے بل گرنا ہی پڑتا ہے۔

Comments